سلام بن رزاق ۔۔۔۔ایک مطالعہ
از ۔۔۔ نورالحسنین
’’ سلام بن رزاق سے نئی نسل کا وہ کارواں وجود میں آتا ہے جو کہانیوں کے
اِخراج کا منکر تھا ۔ یہ وہ گروہ تھا جس نے ہئتی تجربوں کے باؤجود بے مہار
جدیدیت کی اِتباع سے انکار کیا اور کہانی پن کو برقرار رکھا ۔ ‘‘
(نئی کہانیاں ۔۔ ایک بازدید۔۔ ڈاکٹر خورشید سمیع ۔۔ماہنامہ شاعر ۔ جلد (۵۶)شمارہ (۵) صفحہ (۲۲)
سلام بن رزاق جن کا اصلی نام شیخ عبدالسلام ہے ۔ ۱۵!نومبر ۱۹۴۱ ء کو پنویل (مہاراشٹر ) میں پیدا ہوئے ۔ جب وہ سات برس کے ہوئے تو اُن کی والدہ کا انتقال ہوگیا ۔ وہ بچپن ہی سے مصائب اور آلام کے شکار رہے ۔ اُنھوں نے کسی طرح مرہٹی میڈیم سے میٹرک کامیاب کیا ، اور پھر بعد ٹیچرز ٹرینیگ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے محکومہ تعلیمات سے وابستہ ہوگئے ۔اور وہیں سے وظیفے پر علحدہ ہوئے سلام بن رزاق کا پہلا افسانہ ’’ رین کوٹ ‘‘ ۱۹۶۲ ء میں ماہنامہ شاعر ممبئی میں شایع ہوا ۔ اور یہیں سے ان کا با ضابط ادبی سفر شروع ہوا ۔ یہ وہ دور تھا جب اُردو افسانے پر علامت اور تجرید یت کا غلبہ تھا ۔ افسانہ چیستاں بن چُکا تھا ، اور قاری تجزیہ نگاروں کا محتاج ۔۔۔ایسے حالات میں سلام کا افسانوی سفر پورے انہماک اور تمام تر شعور کے ساتھ شروع ہوا ۔ وہ ابتداء ہی سے کہانی پن کے قائل رہے ۔ ساتھ ہی چھٹی دہائی کی افسانوی لہر کا اثر اُنھوں نے بالکلیہ قبول نہیں کیا ایسا بھی نہیں ہے ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُنھوں نے اس اثر کو بطور فیشن قبول نہیں کیا ، بلکہ وہ عصری تقاضوں کو بھی سمجھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سب کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اپنی ایک راہ بنارہے تھے ۔ اُن دنوں اُن پر کمرشیل ادیب کا لیبل بھی چسپان کیا گیا ۔ لیکن اس الزام سے وہ بد دل نہیں ہوئے ، کیونکہ ابتداء ہی سے اُن کے مطالعے میں ہندی افسانہ رہا تھا ۔ اور وہ اس بات سے اچّھی طرح واقف تھے کہ جدیدیت کا یہ خُمار اردو میں بہت دنوں تک باقی نہیں رہے گا ۔
۱۹۷۷ء میں سلام بن رزاق کا پہلا مجموعہ ’’ ننگی دوپہر کا سپاہی ‘‘ شایع ہوا ۔ اور ناقدین کو بیک وقت اُن کے پندرہ افسانے پڑھنے کو ملے ۔ ان کے موضوعات ، بیانیہ کی بھرپور قوت ، کہانی پن کی خوبصورتی ، زبان و بیان کی دلکشی ، اسلوب کی خوبیاں ، اور مطالعاتی وصف نے ان کے بہتر افسانہ نگار ہونے کی مُہر ثبت کردی ۔ اور وہ ایک دم روشنی میں آگئے ۔ ’’ ننگی دوپہر کا سپاہی ‘‘ قاری اور ناقد دونوں ہی کے لیے قابلِ توجہ بن گیا ۔
’’ ننگی دوپہر کا سپاہی ‘ کے بیشتر افسانے نئے تجربوں کے کہانی پن کی
خصوصیت سے مالا مال ہیں ۔ ان کہانیوں میں اعلیٰ اقدار ، انسان کی پسپائی
کا ذکر اس قدر بھیانک انداز میں ہوا ہے کہ رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔‘‘
( نئی کہانی ۔۔طارق سعید۔ ۔۔ماہنامہ شاعر۔۔ جلد (۵۲) شمارہ (۱۱، ۱۲ ) (افسانہ نمبر ) صفحہ (۳۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ سلام کو بیانیہ پر قدرت حاصل ہے اور وہ بے ضرورت لفظ صرف نہیں کرتا ۔
یہ وہ رشتہ ہے جو منٹو اور بیدی کے اثرات سے نئی نسل تک پہنچتا ہے ۔‘‘
( نیا افسانہ ۔۔علامت ، تمثیل اور کہانی کا جوہر ۔۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ۔ ماہنامہ شاعر ۔ جلد (۵۶ ) شمارہ (۶) صفحہ (۲۵ )
سلام بن رزاق کے افسانوں کے موضوعات عموماً انسانی رشتے ، رشتوں کا الیوژن ، عام آدمی کا استحصال ، سیاسی جبریت ، ماحول اور حالات کی جکڑ بندیوں میں انسان کی بے بسی ، اور اس بے بسی سے نکلنے کی اُس کی جدوجہد ہے ۔ لیکن ان کے پسندیدہ موضوعات میں سیاسی استحصال اور اقتصادی بُحران میں اُبھرتی ڈدبتی سانسیں اور مذہبی جنون سے پیدا ہونے والا انتشار ہے ۔
سلام بن رزاق کا دوسرا مجموعہ ’’ معبر ‘‘ ۱۹۸۷ ء کو شایع ہوا ۔ اِن دونوں مجموعوں کی اشاعت کے درمیان پورے دس برسوں کا فرق ہے ۔ جو اس بات کا کھلا ثبو ت ہے کہ سلام کے مزاج میں ابتداء ہی سے ٹھہراؤ اور مستقل مزاجی موجود ہے ۔ دس برسوں کے بعد آنے والا یہ مجموعہ یقینی طور پر کڑا انتخاب ہے ۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ سلام نے ان دس برسوں میں صرف پندرہ ہی افسانے لکھے ہوں ۔۔۔؟
اِسی طرح سلام بن رزاق کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’ شکستہ بتوں کے درمیان ‘‘ ۲۰۰۱ء کو زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا ۔ اس مجموعہ میں جملہ سولہ افسانے شامل ہیں ۔
سلام بن رزاق کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے ۔ اور شائد اسی وجہ سے ان کی ذیادہ تر کہانیاں اسی
طبقے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یہ کہانیاں کبھی فرد کے بیرونی مسائل کا پردہ چاک کرتی ہیں تو کبھی اندرونی خلفشار کا آئینہ بن جاتی ہیں ۔ اُنکے بیانیہ کی قوت قاری کو باندھے رکھتی ہے ۔ ان کی کہانیوں کے کردار کبھی حالات سے جو جھتے ہیں ۔ کبھی مفا ہمت پر اُتر آتے ہیں تو کبھی سیاسی جبریت کا شکار ہوتے ہیں ، تو کبھی احتجاج پر کمر بستہ نظر آتے ہیں ۔ اور کبھی سب کچھ یوں برداشت کرتے ہیں جیسے یہی ان کا مقدر ہے ۔ لیکن ذیادہ تر سلام کی کہانیوں کا انجام قاری کا پسندیدہ انجام ہوتا ہے ۔ اسی لیے وہ نیچرل
( NATURAL (بھی محسوس ہوتا ہے
افسانہ ’’ بیعت ،پٹّا، ایک اور شرون کمار ، اور البم اس شخص کی چار کہانیاں ہیں جو خاندان کا اکیلا پالن ہارا ہے ۔ جس کے کندھوں پر بوڑھے والدین ، بیوی ، بہن بھائی اور بچوں کا بار بھی ہے ۔ خاندان کے یہ افراد جہاں اس سے بے پناہ محبت بھی کرتے ہیں وہیں وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے آگے اُس پر قطعی رحم کھانے کو تیار نہیں ۔ بلکہ وہ اپنی چاہتوں اور محبتوں کا صلہ مانگتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں اُس شخص کو اپنی خواہشات ، آرزووں اور آدرشوں کو قربان کردینا پڑتا ہے ۔ کبھی وہ اپنی گردن کسی سُنہرے پٹّے کے حوالے کردیتا ہے اور کبھی بیعت کرنے پر مجبور ہے ۔ اور کبھی چپ چاپ خون اُگلتے ہوئے کاشی دھام کی یاترا پر نکل پڑتا ہے ۔ سلام نے ان کہانیوں کے لیے علحدہ علحدہ واردات کا سہارا لیا ہے ۔ کردار بھی بدلے ہیں ۔ لیکن جس بھٹی میں یہ کردار دم توڑتے ہیں وہ ایک ہی ہے ۔
’’ پھر مجھے کسی بات کا ہوش نہیں رہا ۔ شائد میں مرگیا تھا ۔ اپنی خودداری ، غرور
اور وقار کو سینے سے لگائے میں نے خود کُشی کرلی تھی ۔ مگر ہاں وہ آج بھی زندہ
ہے ۔ اب وہ اس فرم کا اسسٹنٹ مینجر ہے ۔ ‘‘
( افسانہ ۔۔ پٹّا ۔۔ نام کتاب ۔۔ ننگی دوپہر کا سپاہی ۔۔صفحہ (۳۸)
’’ غور سے دیکھیے تو ہر دوستی کی بنیاد کسی نہ کسی غرض پر قائم نظر آئیگی ۔
شائد دوستی بھی انسان کی بے شمار ضرورتوں میں سے ایک ہے ۔
ماں، بیوی ، باپ ، بھائی ، عزیز ، رشتہ دار کتنی پر چھائیاں میرے
گرد منڈلا رہی ہیں ۔ میں ایک آئینہ بن گیا ہوں ۔ جس میں
دوسرے کے عکس گڈ مڈ ہوگئے ہیں ۔ ‘‘
( افسانہ ۔۔البم ۔۔نام کتاب ۔۔ ننگی دوپہر کا سپاہی ۔۔ صفحہ (۱۹، ۱۸ )
’’ میں دستخط کرنے آیا ہوں ۔ اپنی آوازپر میں خود چونک جاتا ہوں
۔ ۔۔یہ آواز ۔۔۔جیسے کوئی ڈوبتا ہوا شخص گہرے کنویں سے چیخ
رہا ہو ۔۔۔ ’’ ویری گُڈ ۔۔!‘‘
ایک بے رحم مسکراہٹ مجھے اندر تک چیرتی چلی جاتی ہے ۔
’’ مجھے یقین تھا کہ تم صحیح فیصلہ کروگے ۔۔۔!‘‘
میں کچھ نہیں جانتا ، کچھ نہیں سنتا ، جھک کر میز پر رکھے ہوئے اس
نوٹس پر دستخط کردیتا ہوں ۔ چپ چاپ ۔۔۔۔
مگر نہیں ۔۔۔۔یہ دستخط کرنے والا شخص ’ میں ‘ نہیں تھا ۔ میں تو
کل رات اپنی ہی چھت کے نیچے بستر پر مرچکا تھا ۔ ‘‘
( افسانہ ۔۔ بعیت۔۔نام کتاب ۔۔ ننگی دوپہر کا سپاہی۔۔صفحہ(۶۶)
’’اچانک ایک عجیب سا خیال اُس کے ذہن میں آیا اور اس خیال کے
آتے ہی پہلے تو وہ بری طرح چونکا ، مگر دوسرے ہی لمحے اندھیرے میں
اس کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔اور اس کے ہونٹوں پر ایک زہر خند پھیل گیا ۔
ہاںکتنا اچّھا ہو ، اگر آج کی رات بھی راجہ دشرتھ شکار کے لیے آئے ہوں ۔
اور وہ آج بھی غلطی سے تیر چلا دیں ، اور تیر سیدھا میرے سینے میں پیوست
ہوجائے ۔۔۔اور میں اسی بوجھل ، شکستہ اور ناقابلِ برداشت زندگی کے بوجھ
سے نجات پاجاؤں ۔ آہ کتنا اچھا ہو ۔۔۔کاش آج بھی راجہ دشرتھ آئیں اور۔۔
۔۔اور ۔۔۔بس ایک تیر ۔۔۔صرف ایک تیر ۔۔۔اور قصّہ تمام ۔ ‘‘
( افسانہ ۔۔ایک اور شرون کمار ۔۔ نام کتاب ۔۔معبر ۔۔صفحہ (۸۴)
معاشی اقتصادی گھٹن سے نکل کر جب سلام اپنے اطراف و اکناف کا جائزہ لیتے ہیں تو چاپلوسی ، تنگ نظری ، مذہبی جنون ، ریا کاری ، مصلحت کوشی ، ظاہر و باطن کی اجنبیت اور خود غرضی کے جاری سکوں کے پیچھے اُس معصومیت کو عنقا پاتے ہیں جو انسان کے وسیلے سے کائنات کی شناخت کی مظہر ہے ۔ افسانہ ’’ مکھوٹے ، اُس دن کی بات ، دودِ چراغ، یک لویہ اور تصویر انسانی روئیوں کے افسانے ہیں ۔ افسانہ ’’ مکھوٹے ‘‘ انسان کی دوہری شخصیت کا پردہ چاک کرتا ہے ۔ افسانے کا بے نام کردار ’ میں ‘ جب تک مصلحتوں کا عادی نہیں ہوتا ہے ایک بے جان سی زندگی گزارتا ہے ، لیکن جیسے ہی وہ اپنے چہرے پر مکھوٹے بدلنے کا فن جان جاتا ہے ۔ ایک کامیاب انسان کی زندگی گزارنے لگتا ہے ۔ کیونکہ یہ مکھوٹے اُسے آفیس میں ایک اُصول پسند اور سخت قسم کا عہدہ دار ، تو دوسری طرف اپنے باس کا نہایت چاپلوس اور محکوم ملازم ، گھر میں وفادار شوہر ، ماں کے نزدیک با اخلاق بیٹا ، بچوں کے لیے شفیق باپ ، دوستوں کے لیے میزبان دوست ثابت کرتے ہیں ۔ لیکن ایک روز اُسے یہ پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ اس سے آفیس میں ملتے ہیں وہ بھی دراصل وہ نہیں ہوتے بلکہ وہ بھی مکھوٹیبدلنے کے فن سے واقف ہیں ۔ وہ بڑاپریشان ہوتا ہے ، لیکن جس ماحول ، اور جس مزاج کا وہ عادی ہوچکا ہے ۔ اب اس کا بدلنا نا ممکن ہے ۔ اس افسانے کے ذریعے سلام نے بڑی مہارت سے سماجی رشتوں کے SET UP پر بھرپور طنز کیا ہے ۔ ’’اس دن کی بات ‘‘ اور افسانہ ’’ دودِ چراغ ‘‘ فسادات پر لکھے گئے افسانے ہیں ۔
افسانہ ’’ اُس دن کی بات ‘‘ خود کلامی کی تکنیک میں لکھا گیا ہے ۔ اس کہانی کا کرداراندھا بوڑھا سادھو ، جو ایک خانقاہ میں گذشتہ کئی برسوں سے سکونت پذیر ہے، اور جس نے بٹوارے کو بھوگا ہے ۔ رہتا ہے ۔ ایک شام شہر میں فساد برپا ہوجاتا ہے ۔ دونوں فرقے اپنے اپنے مذہبی نعرے لگاتے ہوئے کشت و خون پر آمادہ ہیں ۔ ایک ہندو ٹولی سادھو کو خانقاہ سے بھاگ نکلنے کی ترغیب دیتی ہے ، لیکن سادھو وہاں سے نہیں بھاگتا ۔ وہ عجیب سی نفسیاتی اُلجھنوں میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔اُسے اس بات پر یقین ہی نہیں آتا کہ جس بستی میں وہ بابا کے نام سے پکارا جاتا ہے اُسی بستی کے لوگ اُسے مار ڈالیں گے ۔۔۔اسی کشمکش میں وہ ایک کمسن بچّے کی سِسکیوں کی آواز سنتا ہے ۔ اس کے ذہن میں معصوم پر کی گئی ساری ذیادتیاں گھومنے لگتی ہیں ۔ وہ بچے کو اپنے قریب بُلاتا ہے ۔بچّہ کچھ دیر تک نہیں آتا ، لیکن سادھو کا شفیق لہجہ اُسے قریب آنے پر آمادہ کر تا ہے ۔ سادھو اس کے بے تحاشہ دوڑتے ہوئے قدموں کی آوازوں کا منتظرہے ، لیکن اچانک بچّے کی آواز اُبھرتی ہے ، ’’ بابا۔۔۔پہلے یہ بتاؤ تم ہندو ہو کہ مُسلمان ۔۔۔؟ ‘‘
بچّے کا یہ خوف زدہ سوال قاری کو صرف چونکاتا ہی نہیں بلکہ تنگ نظری اور تعصب کے اس زہر کو بھی ظاہر کرتا ہے جو آزادی کے بعد پیدا ہونے والی نسل تک پہنچ رہا ہے ۔ اور اس خدشہ کو بھی اُجاگر کرتا ہے کہ کیا ہم آنے والے زمانے میں صحیح ہندوستانی پیدا کرسکیں گے ۔۔۔؟
افسانہ ’’ دودِ چراغ ’’ اُس شخص کی کہانی ہے جو اپنی ہی بستی کے ایک چوراہے پر اُن لوگوں کے ہاتھوں زخمی ہوکر پڑا جن سے اس کی کوئی دُشمنی نہیں تھی ۔ وہ اپنے حملہ آوروں سے واقف تک نہیں ہے ۔ اس کے ذہن میں ایک ایک منظر کسی فوٹو گراف کے مانند اُبھر تا ہے ۔ یہ کہانی تلازمۂ خیال کی تکنیک میں لکھی گئی ہے ۔ اس میں داخلی اور خارجی کیفیات کا بڑا عمدہ امتزاج پیش کیا گیا ہے ۔ بیانیہ کی قوت اور حقیقت پسندانہ اظہار نے ان دونوں افسانوں میں شدید تاثر پیدا کردیا ہے ۔ قاری ان افسانوں میں اپنی سانسیں بھی محسوس کرنے لگتا ہے ۔ اور یہی وہ کرافٹ مین شِپ ہے جو قاری کو اپنے سے بہت قریب کرتی ہے ۔ ڈاکٹر خورشید سمیع لکھتے ہیں ۔
(’’ تاثرات کی باز آفرینی اور معمولی باتوں میں کہانی پیدا کرکے اُسے
کہانی کا فارم دینا سلام بن رزاق کی مہارت ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ کسی
اور تاثر کو اپنے اوپر مکمل طور پر طاری کرلینا ممکن نہیں ۔ ۔۔مگر سلام بن رزاق
کے پیدا کردہ تاثرات کم و بیش قاری کے قلب پر مرتسم ہوجاتے ہیں ۔ یہ بڑی
بات ہے ۔‘‘)
(نئی کہانیاں۔۔۔ایک بازدید ۔۔ ماہنامہ شاعر ۔ جلد (۵۶ ) شمارہ (۵) صفحہ (۲۲)
مفاد پرستوں کا مذہب کی آڑ میں عام لوگوں کا استحصال کرنا ہندوستان کے لیے نئی بات نہیں ہے ۔ قدیم بھارت میں پیشوں کی بنیاد پر بنائی گئی ذاتیں معاشرے میں فلاح و بہبود کی ضرورت تھی ۔ لیکن ذہنوں پر سوار برتری کے مزاج نے ایک بالکل ہی نئی تاریخ لکھی ۔ اس کے گھناؤنے اثرات اس قدر شدید ہوئے کہ آج بھی ہندوستان میں اُونچ نیچ کے فرق سے کُلیتہً آزاد نہ ہوسکا ۔ آج حکومت ایسی پچھڑی ہوئی ذاتوں کے سدھار کے لیے حتی الا مکان کوشیشیں کر رہی ہیں ۔ اُنھیں ہر طرح کی سہولتیں پہنچائی جارہی ہیں ۔ لیکن انسانی مزاج جس کی رگ رگ میں اپنے مقابل کا استحصال بھرا ہوا ہے ۔ وہ جذبہ آج بھی کام کر رہا ہے ۔ آزادی کے بعد سہولتیں حاصل کرنے والی کئی نسلیں گذر چکی ہیں لیکن سیاسی مفادات کے پیشِ نظر سہولتوں کی فراہمی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ اس کے باعث جہاں ایک فرقے میں سدھار آرہا ہے وہیں دوسرا فرقہ اپنے مستقبل سے شاکی ہوتا جارہا ہے ۔ یہی بات سلام بن رزاق کے ذہن میں کھٹکی اور افسانہ ’’ ایک لویہ ‘‘ صفئحہ قرطاس پر بکھر گیا ۔
قدیم زمانے میں ایک لویہ آچاریہ دُرونا چاریہ سے تعلیم اس لیے حاصل نہ کرسکا کہ وہ شُدر تھا ، اور آچاریہ اپنے اُصولوں سے بندھے ہوئے تھے ۔
موجودہ دور میں پھر ایک بار ایک لویہ اپنے باپ ہرنیہ کے ساتھ پرنسپل درونہ چاریہ کے سامنے جاکر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ جسے اچاریہ فوراً پہچان لیتے ہیں ۔ یہ منظر افسانے کی روشنی میں ،
’’ آو آو ایک لویہ ۔۔۔آؤ ۔۔۔! ‘‘ پھر ہرنیہ سے بولے ، ’’ کیوں ہرنیہ
کیسے کیسے ہو ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ایشور کی کرپا ہے مہاراج ۔۔۔!‘‘
’’آج کل کیا کر رہے ہو ہرنیہ ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ایک مل میں مجوری کرتا ہوں سرکار ۔۔۔!‘‘
’’ ہم ۔۔۔ مجوری کرتے ہو ۔۔اور اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنا نا چاہتے ہو کیوں ۔۔؟ ‘‘
’’ آپ کی کرپا درشنی ہوئی تو یہ جرور داکدر بن جائے گا مہاراج ۔۔۔!‘‘
’’ ایسا نہ کہو ہرنیہ ۔۔۔تم نہیں جانتے ہم آج بھی کتنے مجبور ہیں ۔۔۔!‘‘
’’آپ کی کیا مجبوری ہوسکتی سرکار ۔۔۔؟‘‘
’’ ہرنیہ تم ساڑھے تین ہزار برس کے بعد بھی مورکھ ہی رہے ۔۔۔ !‘‘
’’ سرکار ۔۔۔ چھوٹا منہ بڑی بات ، اُس وکھت ہمارا جنم شُدروں میں ہوا
تھا ۔ مگر آج تو ہم شُدر نہیں ہیں ۔ ایک لویہ کو اپنا شیشہ بنانے میں کیا
کٹھنائی ہوسکتی ہے ۔۔۔؟ ‘‘
’’ یہی تو گڑبڑ ہے ہرنیہ ۔ زمانہ بدل چکا ہے ۔ تم آج بھی شُدر یا ہریجن
ہوتے تو میں آنکھیں بند کرکے ایک لویہ کو بی ۔ سی ۔ کے کوٹے سے
سیٹ دے دیتا ۔ مگر اب اڑچن یہی ہے کہ تم شُدر نہیں ہو۔۔۔!‘‘
( افسانہ ۔ ۔ ایک لویہ ۔۔ نام کتاب ۔۔ معبر ۔۔ ۱۹۸۷ء صفحہ ( ۲۸ )
سلام بن رزاق کا قلم ہی ایسی بے باک کہانی لکھ سکتا ہے ۔ یہ وہ سماجی سیاسی آگہی کا افسانہ ہے ۔ جس کے پیچھے خدا جانے کتنے ایک لویہ اپنے روشن مستقبل سے بچھڑ کر اندھیروں میں بھٹک گئے ہونگے ۔ ممتاز افسانہ نگار رام لال نے بالکل صحیح لکھا ہے ،
(’’ ایک ادیب کے لیے سیاسی و سماجی شعور کا مالک ہونا ضروری ہے ۔ اسی
سماجی شعور کی مدد سے ہی وہ اپنے عہد کے حالات کا صحیح تجزیہ کرپاتے ہیں ۔ ‘‘)
(نام کتاب ۔۔ اُردو افسانے کی نئی تخلیقی فضاء ۔۔رام لال ۔۔ ۱۹۸۵ء صفحہ (۱۴ )
سلا م بن رزاق نے شعور کی آنکھوں سے جب اپنے اطراف کا جائزہ لیا تو اُنھوں نے دیکھا ، ماحول پر ایک عجتب طرح کا خوف مسلط ہے ۔ مایوسی اور یاسیت زندگی کی مسرتو ں کو چاٹ رہی ہے ۔ سیاسی جبریت اور خودغرضیوں کا بڑطتا ہوا ہیولہ عام انسانوں کا مسلسل استحصال کر رہا ہے ۔ عدم تحفظ کی کیفیت طاری ہے ۔ ناکامی اور محرو می دن بدن مقدر بنتی جارہی ہے ۔ اس احساس نے اُن سے افسانہ
’’ ندّی ، ننگی دوپہر کا سہاہی ، خصّی ، مسٹر نو بڈی ، زنجیر ہلانے والے ، کالے ناگ کے پُجاری ، حمام اور ’ معبر ‘ جیسے افسانے لکھوائے ۔ انسان کی بے بسی اور انتظامیہ کی بے حسی پر انھوں نے افسا نہ ’ انجامِ کار ، لکھا ۔ اس کہانی کا اختتام باؤجود اس کے کہ نہایت فطری ہے کچھ اختلافات کا سبب بھی بنا ۔ لیکن نوجوان کا شامو دادا کے اڈّے پر جاکر پاؤسیر مو سمبی ( شراب ) کا مانگنا صرف ایک کردار کی پسپائی ، یا انتظامیہ کی بے حسی پر ختم نہیں ہوجاتا بلکہ یہ اشارہ ہے کہ اگر حالات اور انتظامیہ گراوٹ کی اس حد کو پہنچ جائے تو پھر بُرائی یا گندگی ہی مقدر ہوجاتی ہے ، اور اس سے سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے ۔
جیسا کہ پہلے ہی بیان کیا جاچکا ہے کہ سلام بن رزاق کے افسانوں پر چھٹی دھائی کے اثرات بھی مرتسم ہیں ۔ لیکن اس کے باؤجود اُن کے پاس کہانی پن کی اعلیٰ روایت سے انحراف نہیں ہے ۔ اور نا ہی سلام کا کوئی افسانہ ترسیل و اِبلاغ کا مسلہ بنتا ہے ۔ افسانوں کی علامتیں اور تمثیلیں اتنی واضح ہیں کہ اُنھیں کسی تجزیہ نگار کی محتاجی نہیں ۔ اُس دور کے افسانوں میں ، ’’ زنجیر ہلانے والے، ننگی دوپہر کا سپاہی ، حمام ، کالے ناگ کے پجاری ، ندّی ، اور معبر شامل ہیں ۔ ان افسانوں کی تہہ داری ، معنیٰ آفرینی ، اسلوب ، بیانیہ کی پُرکاری ، زبان و بیان کا جلال ، استعاروں اور تشبیہات کی اثر انگیزی ، او ر موضوع کی پیش کشی میں اتنی عمدہ مہارت دیکھائی گئی ہے کہ قاری ششدر رہ جاتا ہے ، اور بار بار ان افسانوں کی گہرائی و گیرائی میں غوطہ زنی کرتا ہے ۔ افسانہ ’’ ننگی دوپہر کا سپاہی ‘‘ اور ’’زنجیر ہلانے والے ‘‘ غالباً ملک میں نافذ ایمر جنسی کے دور کے افسانے ہیں ۔ ان میں خوف اور عدم تحفظ ، دہشت ناکی کی فضاء کا احساس ملتا ہے ۔ افسانہ ’’ ننگی دوپہر کا سپاہی ‘‘ میں تپتی ہوئی دھوپ اور افسانہ ’’ ز نجیر ہلانے والے ‘‘ کی تاریکی دوعلحدہ صورتیں ہیں ، لیکن یہ ایک ہی علامت کے دو روپ ہیں ۔ اور اُن سے تقریباً ایک ہی معنیٰ اخذ کیے گئے ہیں ۔ رات کی تاریکی مستقبل کا اندھیارا، تپتی ہوئی دھوپ ، جیتے جی جہنمی زندگی کی تعبیر ہے ۔ ایک اگر روشنی کا متلاشی ہے تو دوسرا ٹھنڈی چھاؤں کا ۔۔۔ لیکن کیا یہ دونوں چیزیں آج کے انسان کے لیے ممکن ہے ؟ یہی وہ سوال ہے جو ان افسانوں کے بطن سے بار بار اُٹھتا ہے ۔ ’’ ننگی دوپہر کا سپاہی ‘‘ میں سائنسی اور صنعتی ایجادات کے سبب مادہ پرستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا تصیادم ، بحرانی صورتِ حال کو بیان کیا گیا ہے ۔ بلند و بالا عمارتوں پر عوام کی لمبی قطاریں ان کی مادہ پرستی ، مصلحت کوشی و آرام و آسائش کے ساتھ شان وشوکت کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ اس صورتِ حال کا جائزہ جب مرکزی کردار لیتا ہے تو وہ اُنھیں مشین گن سے بھون کر رکھ دینے کی خواہش کرتا ہے ۔ لیکن یہ بات اُس کے اختیار سے باہر ہے ۔ اور نا ہی وہ اُن بلند و بالا عمارتوں کو بارود دکھا سکتا ہے ۔ وہ اپنے ہی جھولے میں رکھی ہوئی کتابوں کو پھاڑ ڈالتا ہے ۔ اور آگے چل پڑتا ہے ۔ اس کے بعد وہ ایک اور جلوس میں شامل ہوجاتا ہے ۔ یہ جانے بغیر کے اُسے وہ کس منزل پر پہنچائیگا ۔ اس فیصلے کی روشنی میں سلام یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ سیاسی لیڈران اپنے مفاد کی خاطر عوام کو جلوس نکالنے پر راضی تو کرلیتے ہیں ، لیکن ایسے جلوس اور جلسوں سے اُنھیں کیا ملتا ہے ؟ سلام بن رزاق کا یہ افسانہ جہاں ان کی سیاسی بصیرتوں کا عکاس ہے وہیں معاشرے اور سماج سے اُن کی وابستگی کو بھی واضح کرتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اُن کے تحت الشعور میں یہ بات بھی موجود ہے کہ ایک نہ ایک دن معاشرے میں صحت مند تبدیلی ضرور آئے گی ۔
افسانہ ’’ زنجیر ہلانے والے ‘‘ اِس بات کی نشان دہی کرتاہے کہ ماحول کی جبریت اور ابتری کا احساس سب کو ہے ، لیکن ان سے نجات پانے کا علاج کسی کے بھی پاس نہیں ہے ۔ سب ہی خوف وہراس کے اسیر دم سادھے اپنی اپنی پناہ گاہوں میں دبکے ہوئے ہیں ۔ چندر بھان کو جب اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ اندھیرا کم ہو رہا ہے اور اب نہ کسی سائرن کی آواز آرہی ہے نا ہی گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز ، تو وہ باہر نکلتا ہے اور لوگوں سے در یا فت کرتا ہے ۔ لیکن سب کے پاس ایک ہی جواب ہے کہ اُس نے دستک دینے والے کو نہیں دیکھا ۔ کچھ لمحوں کے بعد جب پھر ایک بار وہی آوازیں آنے لگتی ہیں تو سب کے سب پھر ایک بار اپنے اپنے مکانوں میں چھپ جاتے ہیں ۔ زنجیر ہلانے والوں پر سے سلام نے پردہ نہیں اُٹھایا۔ جس کے باعث معنوی تہہ داری میں اضافہ ہوگیا ۔ اور مختلف شیڈس اُبھر آئے ۔ اس افسانے کے متعلق نشاط انور کا خیال ہے ،
(’’ زنجیر ہلانے والے کی فضاء ، اجتماع اور ان کے مابین تحرک کا
بھی احاطہ کرتی ہے ۔اس پر خیال فضاء آفرینی میں جس سماعت
اور بصارت اور ساتھ ہی اُمید ، خوف و تجسس کے جذبات سب
گھلے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ سلام بن رزاق نے انفرادی
خوف و دہشت اور اُمید کے لطیف ذہنی ہیو لوں کی فنکارانہ سمعی
تجسیم کی ہے ۔ جو اجتماعی سطح پر بھی افسانے میں متشکل ہے ۔ ‘
(تبصرہ ۔۔کتاب ۔ ننگی دوپہر کا سپاہی ۔۔نشاط انور ۔۔ ماہنامہ جواز ۔۔شمارہ (۷)صفحہ (۱۰۳ )
افسانہ ’’ ننگی دوپہرکا سپاہی ‘‘ اور ’’ زنجیر ہلانے والے ‘‘ میں استعمال ہونے والی علامتیں ابہام سے مملو نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ افسانوں میں اس طرح در آئیں ہیں کہ واقعات مکمل استعارہ بن جاتے ہیں ۔ اس خوبی کو ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید اس طرح بیان کرتے ہیں ،
(’’ سلام بن رزاق نے معاشرے کی مردم کش فضاء ، جبر و استبداد تجدیدات
زنجیروں اور اسی کے ساتھ فرد کی بے بسی ، مظلومیت ، اس کے مسائل ، اس کی
اُلجھنوں ، اور اس کے ماحول میں فرد کی سوالیہ نشانِ حیثیت اور بے معنویت کو
افسانوں کا روپ دیا ہے ۔ مشاہدے کی باریکی اور غور و فکر کے باعث
اشاریت ان کی فنّی ضرورت ہے ۔ ‘‘
( جدید افسانہ اور اشاریت ۔ ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید ۔ماہنامہ شاعر ۔ جلد (۵۳)شمارہ (۴) صفحہ (۳۰)
سلام بن رزاق کی نظریں ملکی سطح سے اُٹھ کر جب دنیا کے نقشے کا مشاہدہ کرتی ہیں تو وہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف عرب اسرائیل سے نبرد آزما ہیں ۔ افغانستان پر پہلے ردسیوں کا تسلط اور پھر وہاں کی اپنی خانہ جنگیاں ، ایران و عراق کی جنگ ، پھر عراق اور امریکی ٹولے کے درمیان ہونے والی جنگ ، اور اس کے بعد کے حالات ، ایٹمی ہتیاروں کی بڑے پیمانے پر ہونے والی خرید و خروخت ، ہر ملک اپنے پڑوسی ملک کے اندورونی معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے ۔ کہیں نسلی امتیازات ، کہیں ذات پات کی بنیادوں پر نفرتیں ، کہیں مہاجر پٹھان کا مسلہ گویا انسان مختلف ٹاپوںمیں تقسیم ہوکر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے۔اوراپنی برتری ثابت کرنے کے لئے اپنے سے کم تراورغیرترقی یافتہ ملکوں کا استحصال کررہاہے ۔افسانہ ’’ندی‘‘عالمی اتحاد کی عکاسی کرتا ہے۔ایک ہی ندی کے باسی الگ الگ ٹاپوں میں منقسم اپنی اپنی حدیں قائم کرنے لگتے ہیں۔لیکن خوداپنی قائم کردہ حدوںکوتوڑکرپڑوسیوںکے لئے مشکلات پیداکرتے ہیں۔اُنھیں ذلیل اورخوارکرنے پرآمادہ رہتے ہیں اوراپنے سے بڑی طاقتوں کے آگے چاپلوسی کارویہ اختیارکیے ہوئے ہیں ۔اُنھیںاپنا مربی سمجھتے ہیں۔جب کہ مربی وہ بدطنیت شخص ہے جو اپنے زیرسایہ لوگوںکی دستگیری محض اس لئے کرتا ہے تاکہ ہمیشہ اُس کے غلام بنے رہیں۔اس افسانے میںمینڈک اورمگرمچھ اناپسندلوگوںکی نمائندگی کرتے ہیں ۔اس صورت حال سے نجات کی خاطرسلام بن رزاق ایک شدیدقسم کاخواب دیکھتے ہیں اورایک عظیم سیلاب کے منتظر ہیں جوتمام تر گندگیوںکوبہالے جائے اورعالمی امن واتحاداس طرح قائم ہوکہ کہیں کوئی تعصب اورخودغرضی کی سرحدیں باقی نہ ہو وہ دعا کرتے ہیں،
’’ ائے بحر و بر کے مالک ! ائے خشکی کو تری اور تری کو خشکی میں بدلنے والے ۔۔
۔۔زمانہ بیت گیا ۔ یہ ندّی سوکھتی جارہی ہے ۔ اور ہم کے جنھیں ایک ہی ندّی کے
باسی کہلانا تھا ۔ الگ الگ ٹاپوں میں بٹ گئے ہیں ۔ ائے قطرے سے دریا بہانے
والے ، اور ندیوں کو سمندر سے ملانے والے ہمارے رب ! ہماری اس سوکھی ندّی
میں کسی صورت باڑھ کا سامان پیدا کردے ۔ تاکہ ہم جو ان چھوٹے چھوٹے ٹاپووں
میں تقسیم ہوگئے ہیں پھر اُسی ندّی میں گھل مل جائیں ، اور اس کے وسیع
دامن میں جذب ہوکر اسی کا ایک حصّہ بن جائیں ۔ ۔۔!
سیلاب ! صرف ایک تُند و تیز سیلاب۔۔۔۔۔! ‘‘
(افسانہ ۔۔ ندّی ۔۔ نام کتاب ۔۔معبر ۔۔ صفحہ
لیکن اس دُعا پر آمین کہنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ بلکہ سب کے سب اپنے اپنے کم کم اور گدلے پانی میں ڈُبکیاں لگا چکے ہوتے ہیں ۔ یعنی یہ ایک ایسا بے حسی کا دور ہے جس میں کوئی فرد اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ کوئی انقلاب پیدا کرسکے ۔ سلام بن رزاق کی یہ دُعا نہیں بلکہ بد دعا ہے۔ اور ان عذابوں کی یاد دلاتی ہے جو پیغمبروں کی بد دعاؤں کا نتیجہ رہے ہیں ۔ اس افسانے کے ذریعے سلام نے ایک ادیب کا مقام بہت ہی بلندی پر پہنچا دیا ہے ۔
’’ ندّی ‘‘ بلا شبہ بین الا قوامی اتحاد کے پس منظر پر سلام کی ایک بہترین کہانی ہے ۔ اس کا تمثیلی پیرایہ ، زبان و بیان اور اسلوب اس قدر جامہ اور کسا ہوا ہے کہ اسے دیگر زبانوں کی اہم کہانیوں کے مقابل بھی رکھا جاسکتا ہے ۔
افسانہ ’’ کالے ناگ کے پجاری ‘‘ اور ’’ معبر ‘‘ داستانوں طرز میں لکھے گئے افسانے ہیں ۔ ان افسانوں میں پُراسراریت ، خوف و عدم تحفظ کی ملی جلی فضاء ملتی ہے ۔ سلام نے ان کے ذریعے انتظامیہ پر راست چوٹ کی ہے ۔ اسی طرح افسانہ ’’ مسٹر نو بڈی ‘‘ انتظامیہ کی نا اہلی اور فرائض سے عدم دلچسپی کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کا نقشہ پیش کرتا ہے ۔ اس افسانے میں اسکول ایک ملک کی علامت ہے ۔ ہیڈ ماسٹر سربراہ ، اور اساتذہ وہ ہاتھ ہیں جن کے ذریعے قوم کی فلاح و بہبود ممکن ہے ۔ اور طلبہ عوام ۔۔۔ہر جماعت ایک ریاست کی تمثیل ہے ۔
کچھ دنوں سے نہ ملنے والی سہولتوں کے خلاف طلباء کا احتجاج شروع ہوتا ہے ۔ یہ کیفیت ہر جماعت میں دکھائی دیتی ہے ۔ لیکن ہر اُستاد اُسے دوسرے اُستاد سے چھپانا چاہتا ہے ۔ حتّی کہ جب سب کو معلوم ہوجاتا ہے تب بھی وہ اُسے علانیہ ظاہر کرنے سے گریزکرتے ہیں ۔ اساتذہ اپنے فرائضِ منصبی میں کم اور اسپورٹس ،سیاست وغیرہ غیر ضروری باتوں میں ذیادہ دلچسپی لیتے ہیں ۔ اسکول طلباء کی بنیادی ضروریات کی تکمیل سے بھی قاصر ہے ۔ اور ان کے خلاف اُٹھنے والی اس احتجاج کو وہ کسی بیرونی ہاتھ کا کارنامہ سمجھتے ہیں ۔ ہیڈ ماسٹر اپنی ہنگامی میٹنگ میں کہتا ہے ،
’’ ساتھیوں ! میں رسمی تمہید باندھنے کے بجائے سیدھے بات شروع
کرتا ہوں ۔ دراصل مجھے شکائتیں مل رہی ہیں کہ ہمارے اسکول کا
ڈسپلین بہت خراب ہوگیا ہے ۔ دہ دنوں بلکہ دن بدن خراب ہوتا جا
رہا ہے ۔ یہ ہم ذیاتک برداشت نہیں کرسکتے اسکول۔۔۔میں ۔۔۔
بلکہ ہر کلاس میں کچھ ایسے بچّے داخل ہوگئے ہیں ، جو اپنی حرکتوں سے
اسکول کو بد نام کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ آپ جانتے ہیں کہ پچھلی حرکتوں
سے اسکول کو بد نام کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ آپ جانتے ہیں کہ پچھلے
دو سال سے رزلٹ بھی تسلی بخش نہیں آرہے ہیں ۔ اس بات کو
اخباروں میں بھی اُچھالا گیاآخر یہ سب کون کروارہا ہے ؟ اس کے
پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ ہے ؟ ہمارے اسکو ل کی بد نامی سے کن لوگوں کو
فائدا پہنچے گا ؟ ہم اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتے ۔ مگر اتنا ضرورکہیں
گے کہ وہ جو بھی ہوں وہ اسکول ہی کے نہیں قوم کے دُشمن ہیں ۔کیونکہ اس سے یہ ہوگا کہ جب اسکول بہت بدنام ہوجائیگا تو انکوائری ہوگی
پھر ہوسکتا ہے ہماری گرانٹ بند ہوجائے۔گرانٹ بند ہوگئی تو یہ اسکول
۔ وہ دن ہمارے حق میں بہت بُرا دن ہوگا ۔اس دن کو ٹالنے کے لیے
مجھے آپ تمام لوگوں کے تعاون کی ضرورت ہے ۔ ہم نے طئے کرلیا ہے
کہ اسکول سے گندے اور شریر بچّوں کا صفایا کر کے رہیں گے ۔ ہم نے
تمام چپراسیوں کو اسکول کے اسکاؤٹ گاڈز کو سختی سے حکم دیا ہے کہ وہ
ایسے بچّوں پر کڑی نظر رکھیں ، اور جہاں بھی کوئی شرارت کرتا نظر آئے
ہمیں فوراً اطلاع دیں ۔ ۔۔آپ لوگوں کو بھی ہدایت کی جاتی ہے کہ ایسے
طلباء کی خفیہ فہرست تیار کریں اور آفیس میں پیش کریں ۔ ان کے خلاف
سخت کاروائی کی جائے گی ۔ میں آپ لوگوں کا ذیادہ وقت نہیں لوںگا ۔۔
آپ لوگوں کو بھوک لگی ہوگی ! ‘‘ )
( افسانہ ۔۔ مسٹر نو بڈی ۔۔نام کتاب ۔۔معبر ۔۔ صفحہ ( ۱۴۹ )
اسکول کے بہتر نتائج کی ذمہ داری اساتذہ پر ہے اور اگر نتائج خراب آتے ہوں تو اس کے ذمہ دار بھی اساتذہ ہی ہونگے ۔ لیکن ہیڈ ماسٹر کا یہ کہنا کہ ، ’’ اس کے پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ ہے ۔ ‘‘ حقائق سے پردہ پوشی کے مترادف ہے ۔ اور پھر شریر بچوں پر اس لیے نظر رکھنا کہ کہیں بد نامی کے باعث اسکول کی گرانٹ بند نہ ہوجائے خالص خود غرضانہ روئیہ ہے ۔ اور اساتذہ کی خاموشی بد دیانت مشیروں کے مماثل ہے ۔ حالانکہ وہ اچّھی طرح جانتے ہیں کہ یہ حرکتیں کیوں ہورہی ہیں ۔
’’ کیوں نہ کریں جی ! اس اسکول میں اُن کے لیے رکھا ہی کیا ہے ۔ لیبارٹری ،
لائبریری تو دور کی بات ہے ۔ پانی پینے کے لیے تو ڈھنگ کا واٹر روم تک نہیں ۔۔
پیشاب گھر ہے تو اتنا چھوٹا کہ بچوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ایک دم ناکافی ہے ۔
۔۔پیشاب کے لیے بیچارے بچّے باہر نالی پر جاتے ہیں ۔ پتہ ہے نا ؟ چار روز
پہلے ایک بچّہ نالی میں گرگیا تھا ۔ اچھا ہوا ایک راہ گیر کی اس پر نظر پڑگئی ۔ ورنہ
پتہ نہیںاُس بیچارے کا کیا حشر ہوتا ؟ اسکول کے لیے نہ کوئی کھیل کا میدان ہے
نا کوئی کھیل کا سامان ۔جب بچوں کو اپنے بھیتر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ڈھنگ
سے اُجاگر کرنے کا موقع نہیں ملتا تو وہ اسی طرح شرارتیں کرنے لگتے ہیں ۔ یہ تو
چائلڈ سائکولوجی کا معمولی سا نکتہ ہے ۔ جو تم بھی جانتے ہو اور ہم بھی ۔ ‘‘
(افسانہ ۔۔ مسٹر نو بڈی ۔۔۔ کتاب۔۔معبر ۔۔ صفحہ (۱۴۶ )
بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ایک بہتر انتظامیہ کا نصب العین ہونا چاہیے ۔ اور جو انتظامیہ اس طرف توجہ نہیں دے گا ۔ وہاں حالات بگڑیں گے ۔ احتجاج ہوگا بلکہ انقلاب بھی آسکتا ہے ۔
سیاسی جبریت کے پس منظر میں سلام بن رزاق نے ایک اور افسانہ لکھاہے ’’ خصّی ‘‘ جو جبری نسبندی کے خلاف شدید احتجاج کرتا ہے ۔ پرس رام اپنے بیلوں کی خصّی اس لیے کروانا نہیں چاہتا کہ یہ فطرت کے عین خلاف ہے ۔ اور ا پنے فائدے کی خاطر جانوروں پر ظلم کے برابر ہے ۔ لیکن جب وہ یہ سنتا ہے کہ اگر وہ یہ کام نہیں کروائے گا تو پنچایت سے بیج ، کھاد اور دیگر سہولتوں سے محروم کردیا جائے گا ، تو وہ اپنے آدرشوں کو تیاگ کر مصلحت کا شکار ہوجاتا ہے ۔
یہ افسانہ حقیقت نگاری کا ایک مرچع ہے ۔ اور راست قاری کے دل پر اثر کرتا ہے ۔ سلام بن رزاق نے جزیات نگاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دیہاتی پس منظر اور پیش منظر کی بڑی عمدہ عکاسی کی ہے ۔
افسانہ ’’ تصویر ، خواب اور ان کی تعبیروں کی دریافت کا افسانہ ہے ۔ زندگی کی اُلجھنوں میں گھیرے ہوئے چار دوست ہر روز ایک مخصوص بار میں ملتے ہیں ۔ اپنی ناکامیوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ نشہ کرتے ہیں ۔ کچھ خواب دیکھتے ہیں ۔ بڑبڑاتے ہیں ۔ خواہشوں کی تصویریں بناتے ہیں ۔ نغموں میں ان کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور پھر زندگی کی بے کیفی میں ڈوب جاتے ہیں ۔ یہ عمل وہ بار بار دوہراتے ہیں ۔ انسان ایک خاص مدت تک ہی اپنے مخصوص مستقبل کا پیچھا کرتا ہے ۔ اور اگر اُسے مسلسل ناکامیوں اور محرومیوں کا منہ دیکھنا پڑے تو پھر وہ مصلحت آمیزی کا شکار ہوجاتا ہے ۔ وہ چاروں بھی قدم قدم پر سمجھوتہ کرنے لگتے ہیں ۔ اور اپنے زندہ رہنے کا قرض اُتارتے رہتے ہیں ۔ لیکن خواہشات ، آرزوویں ، اُمنگیں آخر تک پیچھا نہیں چھوڑتیں ۔ اور وہ پھٹی ہوئی تصویر کے تراشوں کی طرح اُسے بار بار جوڑ کر صحیح تصویر بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ حتٰی کے بار بند ہوجاتا ہے ۔
یہاں بار کا بند ہونا مزید کسی و ضا حت کا طالب نہیں ہے ۔ سلام بن رزاق نے انسانی جبلتوں کی بڑی عمدہ عکاسی کی ہے ۔ اس افسانے کی زبان و بیان کا بھی خوب خیال رکھا ہے ۔ بلکہ بڑی خوبصورت زبان استعمال کی ہے ۔ اور اپنے اسلوب کو ایک نیا انداز بھی دینے کی کوشش کی ہے جو کامیاب ہے ۔
افسانہ ’’ قصّہ دیو جانس جدید ‘‘ اُس کردار کی کہانی ہے جو معاشرے میں روائتی تبدیلی کا خواہاں ہے ۔ لیکن اس کے اطراف ایک ایسی بے حسی اور بے کیفی ہے جس کو بدلنے کے لیے وہ اکیلا ناکا فی ہے ۔ وہ جس ماحول میں موجود ہے اس کے اثر سے خود اُس کا بچنا محال ہے ۔ چناچہ ایک دن ایسا آتا ہے جب وہ اپنے سیدھائے ہوئے کتّوں کے بیچ خود بھی بھونکنے لگتاہے ۔ لیکن اس کے اطراف کھڑے ہوئے کتّے اتنے بے حس ہیں کہ وہ اپنی ہی آواز کو دوسرے کے منہ سے سن کر بھی قطعی نہیں چونکتے ۔ گویا یہ تو ہونے ہی والا تھا۔
افسانہ ’’ دست بُریدہ لوگ ‘‘ محنت کش طبقے کے استحصال کی عکاسی کرتا ہے ۔ سلام بن رزاق اس میں بھی داستانوں اسلوب کو اپناتے ہیں ۔ بلکہ جس طرح داستانوں میں کہانی در کہانی چلتی ہے یہ کیفیت اس افسانے میں بھی موجود ہے ۔ پُر اسرار فضاء ، عجیب و غریب کردار ، چونکانے والے واقعات ، اور تیز رفتار منظر نامہ قاری کو ایک ایسی دُنیا کی سیر کرواتا ہے جو اس کے اطراف بکھری ہوئی ہونے کہ باؤجود اُسے اجنبی محسوس ہوتی ہے ۔ افسانے کی روشنی میں ایک مسافر ایک ایسے سادھو کی کُٹیا پر پہنچتا ہے جہاں ایک کنواں ہے ۔ جس میں صاف و شفاف پانی ہے ۔ اُس کے اطراف جھاڑیاں ہیں ۔ اور ان میں کِھلے چشم آسا پھول ہیں ۔ جیسے وہ کسی کے لیے منتظر ہیں ۔ مسافر کو پیاس کی شدّت محسوس ہوتی ہے ۔ اور وہ سادھو کی اجازت سے کنویں سے پانی نکال کر پیتا ہے تب سادھو اُسے بتاتا ہے کہ اُسے کڑاکے کی بھوک محسوس ہوگی ۔کیونکہ یہی پانی کی تاثیر ہے ۔ اور واقعی مسافر بھوک کی شدّت محسوس کرنے لگتا ہے ۔ وہ سوال کرتا ہے ، ’’ بابا پانی تو کنویں سے حاصل ہوجاتا ہے لیکن کھانے کا کیا انتظامہے ۔۔۔؟ ‘‘ سادھو بتاتا ہے کہ وہ ہر شام قریب کی بستی میں جاتا ہے ۔اور وہاں ایک چِلو بھکشا مانگ کر لاتا ہے ۔ سادھو اُسے اپنے ساتھ چلنے کی پیش کش بھی کرتا ہے ۔ لیکن مسافر جس کے پاس سونے کے چند سکّے ہیں ۔ بھیک مانگنے پر آمادہ نہیں ہوتا ، بلکہ وہ اشیاء خرد و نوش کو خریدنے کی بات کرتا ہے ۔پھر سادھو کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر بستی میں داخل ہوتا ہے ۔ وہاں وہ ایک نئے تجربے سے دوچار ہوتا ہے کہ دو مُٹھی اناج کے عوض لوگ اپنا دایاں ہاتھ کٹواتے ہیں ۔ پھر شام کو وہ ہاتھ اُگ آتا ہے ۔ اس طری یہ عمل ہمیشہ سے جاری ہے ۔ مسافر احتجاج کرتا ہے ۔ اُسے پکڑلیا جاتا ہے ۔ لیکن مسافر ہونے کے سبب بستی سے نکال دیا جاتا ہے ۔ وہ بھاگتا ہوا سادھو کی کُٹیا پر آتا ہے ، اور سارا ماجرا بیان کرتا ہے ۔ لیکن سادھو کے چہرے پر کوئی تاثر پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے مقررہ وقت پر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بھکشا حاصل کرنے اُسی گاؤں کی طرف روانہ ہوجاتا ہے ۔ مسافر اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سادھو جواب دیتا ہے کہ وہ اندھا ہے ۔ ان سب باتوں کو نہیں دیکھ سکتا ہے ۔ لِہذااس پر کوئی اثر ہو ہی نہیں سکتا ۔
اس افسانے میں شفاف پانی زندگی کی حرارت ہے ،اور سادھو وہ دانشور ہے جو سب کچھ جان کر بھی اندھا بنا ہوا ہے ۔ ہاتھوں کا کاٹ لینا محنت کے استحصال کی علامت ہے ۔ اس کہانی میں نقاب پوش گھوڑسوار اسی انداز میں ملتے ہیں جو ’’ معبر ‘‘ اور اس قسم کے دیگر افسانوں میں سلام بن رزاق کا مخصوص اسٹائل ہے
سلام بن رزاق کے افسانوں میں ’’ ستی ، واسو ، خون بہا ، اور بجو کا ، سماجی معاشرتی مسائل کے افسانے ہیں ’’ ستی ‘‘ اگر عورتوں پر کیے جانے والے مظالم کا افسانہ ہے تو ’’ واسو ‘‘ شناخت کا مسلہ ہے ۔ ’’ بجوکا ‘‘ انسانی روئیوں اور جذبوں کی عکاسی کرتا ہے ۔ ’’ خون بہا ‘‘ طبقاتی کشمکش اور دیہاتوں میں عام انسانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی کہانی ہے ۔ ان افسانوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سلام کی نظر یں صرف واقعات کا مطالعہ نہیں کرتیں بلکہ کرداروں کے چہروں پر لکھی ہوئی اُن تحریروں سے بھی واقف ہیں جو اپنے ہی اندر ایک دُنیا آباد کیے ہوئے ہے ۔ بقول افتخار امام صدیقی ،
’’ سلام بن رزاق کے افسانوں کی شناخت وہ چھوٹے چھوٹے سماجی مسائل
ہیں جنھیں انسانی کرب کی سرگوشیاں کہا جا سکتا ہے ۔ یہ سرگوشیاں ایک گونج میں
مربوط ہونے کی سمت سفر کر رہی ہیں ۔ اور لاکھوں کروڑںانسانوں میں جذب
ہوکر جو گونج بنا رہی ہیں وہ عصری ذہن کا بے آواز احتجاج ہے ۔ ‘‘
( تاثراتی تجزیے ۔۔ افتخار امام صدیقماہنامہ شاعر ۔۔ جلد (۵۲ ) شمارہ (۱۰ ، ۱۱ )صفحہ (۵۰)
سلام بن رزاق کے افسانوں کے کردار اس میں شک نہیں ہے کہ ذیادہ تر متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے اُن کے افسانوں میں خوف و ہراس ، یاسیت ، نا اُمیدی اور محرومی کی فضاء کا احساس ملتا ہے ۔ ان کے کردار کبھی احتجاج پر بھی آمادہ ہوتے ہیں ،لیکن اکثر جبر کو مقدر مان کر مفاہمت پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ اور اپنے آپ کو حالات اور مسائل کے رحم و کرم پر چھبڑدیتے ہیں ۔ اپنے افسانوں کے کرداروں سے متعلق وہ خود کہتے ہیں ،
( ’’ میں بزدل مصلحت پسند اور شکست خوردہ افراد کا افسانہ نگار ہوں ۔
اس لیے کہ میرے ارد گرد ایسے ہی لوگ بستے ہیں ۔ مظلوم ، محروم اور
ناآسودہ ۔۔۔میرے کردار وہ سخت جان افراد ہیں جو دن بھر میں بیسیوں
دفعہ ٹوٹتے ہیں ۔ ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں ۔ مگر دوسرے روز اپنے بستر سے
صحیح وہ سالم اُٹھتے ہیں ۔ وہ روز شکست کھاتے ہیں ۔ مگر زندگی جینے کا حوصلہ
نہیں ہارتے ہیں ۔ ‘‘ )
( مشمولہ ۔۔جدید اُردو افسانے میں عصری حسیت ۔۔ یاسمین فاطمہ ۔۔ صفحہ ( ۱۴۶ )
سلام بن رزاق نے اپنے افسانو ی سفر کو تجربوں کے حوالے بھی نہیں کیا ، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اُنھوں نے تکنیک اور اسلوب کے کچھ تجربے کیے ہی نہیں ۔ لیکن پھر بھی وہ تجربے جو اکرام باگ ، حمید سہروردی ، ظفر اوگا نوی ، مناظر عاشق ھر گانوی اور انور خان کے یہاں نظر آتے ہیں ۔ سلام نے اپنی افسانہ نگاری کو پاک و صاف ہی رکھا ہے ۔ اسی طرح ناہی حسین الحق کی طرح غیر صحت مند علامت کی روشنی میں وقنا عذابالنار جیسا کوئی افسانہ لکھا ۔ اور نا ہی ان کا کوئی کردار شفق کے افسانے ’’ نچا ہوا گلاب ‘‘ کی طرح معاشی حالات سے تنگ آکر پہلے ہی اسٹیج پر خون بیچنے کے بجائے نس بندی کا آپریشن کرواتا ہے ۔ البتہ ان کے افسانوں میں فینٹاسی کی جھلک ، ماضی سے جُڑے رہنے کی خواہش اور حال کے آنگن سے مستقبل میں جھانکتی ہوئی آنکھیں ضرور روشن ہیں ۔ جو اُنھیں ایک صحت مند ادیب کا درجہ عطا کرتی ہیں ۔
اس مضمون میں سلام بن رزاق کے صرف دو افسانوی مجموعوں کے افسانوں پر بحث کی گئی ہے۔ اُن کا تیسرا مجموعہ ’’ شکستہ بتوں کے درمیان ‘‘ ایک علحدہ سے مضمون کا متقاضی ہے کیوں کہ اس کے ذریعہ سلام نے حقیقت پسندی کی نئی وسعتوں کو دریافت کیا ہے ۔ اور ایک ایسے اسلوب تک رسائی حاصل کی ہے جو نئے افسانے کی نئی تاریخ مرتب کرے گا ۔
http://www.adabnama.com
Salam Bin Razaque 's Short Stories By Noorul Husnain
Read User's Comments(0)
Subscribe to:
Posts (Atom)